Tuesday, June 22, 2010

O Des Aane Wale Bata

او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟
آوارۂ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن، وہ سرو ِوطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا ہم کو وہاں کے باغوں کی مستاتہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں، ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے، جنگل کی ہوائیں بھول گئیں

کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی، مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کمسن ماہ وشیں، تالاب کی جانب جاتیں ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگیں ترانے گاتی ہیں

کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں آتی ہیں؟
معصوم گھروں سے بُھوربَہِی چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیا گاتی ہیں؟

کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
انپُرن کے اجڑے مندر پر مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کی ویرانی و رِقّت طاری ہے؟

او دیس سے آنے والے بتا!۔
شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزرا اب، کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے، پھولوں کے گندھے ہار اب، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں، نوعمر خریدار، اب، کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
آنگڑائی کا نقشہ بن بن کر، سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے، ہنستی ہوئی چوہلیں کرتیں ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں، گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں، برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں، موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی وہان برسات کے دن، باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں، برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگيں جھولوں پر لہراتی ہيں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں، وہ خواب گہِ مَہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی، آہ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا، للّہ بتا للّہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی فجر دم چرواہے، ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کو دھندلے سایوں کے ہمراہ گھر کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا، وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے وہ شمعِِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

مرجاناں تھا جس کا نام بتا، وہ غنچۂ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن، وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ وطن، وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں، میکے میں ہے یا سُسرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسےکمبخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی، خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔

کیا اب بھی ہمارے گاؤں میں، گھنگرو ہیں ہوا کے پاؤں میں؟
کیا آگ لگی ہے چھاؤں میں، موسم کا اشارہ کیسا ہے؟
اے دیس سے آنے والے بتا، وہ دیس ہمارا کیسا ہے؟

)اختر شیرانی – احمد فراز(

0 comments:

Post a Comment